حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین ناصر رفیعی نے امام خمینی امامبارگاہ میں اپنی مجلس میں صدر اسلام میں خواتین کی الگ الگ شعبوں کی سرگرمیوں اور مہارتوں پر اپنی تحقیق پیش کی اور بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظیم خدمات کو بیان کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے حجۃ الاسلام و المسلمین ناصر رفیعی کی تقریر کے چند اقتباسات شائع کئے ہیں؛
میری گفتگو کا موضوع عورت کی سماجی سرگرمیوں کا میدان اور حدود اور پھر فاطمی گھرانے کی خصوصیات ہیں۔
میں نے اسلام کے سب سے ابتدائی دور کی خواتین کی سماجی سرگرمیوں کی ایک فہرست تیار کی ہے۔ صدر اسلام یا اسلام کے ابتدائی دور میں مشغولیات اور سرگرمیاں آج کے جیسی وسیع نہیں تھیں۔ ایک گروہ، خواتین شعراء کا ہے۔ 'معجم النساء الشاعرات فی الجاہلیۃ والاسلام' نامی کتاب میں پانچ سو چار شاعرات کا نام درج کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض شاعرات، جیسے سودہ حمدانی جنگ صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کے خلاف اشعار پڑھا کرتی تھیں۔
ایک گروہ، فقیہ، مفسر اور عالم خواتین کا ہے۔ 'حیاۃ الصحابیات' نامی ایک کتاب ہے جسے عبدالرحمن العک اور دوسروں نے لکھا ہے۔ ابن سعد نے 'طبقات' میں ایسی پانچ سو سے زیادہ صحابیات کا نام ذکر کیا ہے۔ یہ ایسی خواتین تھیں جن میں سے بہت سی مفسر قرآن اور فقہ و حدیث کی عالمہ تھیں۔ ان میں سے ایک نفیسہ خاتون ہیں۔ یہ امام حسن علیہ السلام کی پوتی اور اسحاق مؤتمن کی بیوی تھیں۔ زرکلی نے 'الاعلام' میں لکھا ہے کہ وہ تفسیر و حدیث کی عالمہ تھیں؛ یہاں تک کہ احمد ابن حنبل ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے تھے اور ان سے درس حاصل کرتے تھے اور شافعی ان کی باتوں اور حدیثوں کو سنتے اور نقل کرتے تھے۔
ایک دوسرا گروہ طبی امداد فراہم کرنے والی یا تیمارداری کرنے والی خواتین کا تھا جنھیں آج کی زبان میں نرس کہا جاتا ہے۔ ام سنان اسلمی تیمارداری کرتی تھیں۔ وہ جنگ خیبر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئیں اور ان سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اس جنگ میں آپ کے ساتھ چل سکتی ہوں اور زخمیوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہوں؟ آنحضرت نے انھیں اس کی اجازت دی اور وہ ان کے ساتھ جنگ میں گئیں۔ حضرت نسیبہ ایک دوسری تیماردار صحابیہ تھیں جو جنگ احد میں موجود تھیں۔ تو یہ تمام شاعر، عالم، فاضل اور تیماردار خواتین، سماجی کردار ادا کر رہی تھیں۔
تاریخ میں اقتصادی میدان میں سرگرم خواتین کا بھی تذکرہ ہے جن میں سب سے اوپر حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا تھیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی بھی اس کام کو اس عظیم المرتبت خاتون کے لیے عیب نہیں گردانا۔ اس زمانے کی خواتین کی ایک فہرست ہے جو ان کاموں میں سرگرم ہو سکتی تھیں اور بعض مسائل کا لحاظ کرتے ہوئے انھوں نے یہ کام کیے بھی ہیں؛ یہاں تک کہ ماریہ قبطیہ جیسی بعض خواتین، مختلف فنون میں ماہر تھیں۔
مدینے کے معاشرے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سماجی فعالیت تھی۔ آپ، سوالوں کا جواب دینے کا طریقہ پڑھایا کرتی تھیں؛ یہاں تک کہ چالیس راتوں تک وہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو ساتھ لے کر اور سواری پر سوار ہو کر مہاجرین و انصار کے گھروں میں جاتی تھیں اور خواتین سے بات کرتی تھیں۔ وہ مردوں سے چاہتی تھیں کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے دفاع کے لئے کھڑے ہوں، یہاں تک کہ وہ مسجد میں بھی آئیں اور خطبہ بھی دیا، وہ بھی انتہائی فصیح و بلیغ، طویل اور زبردست خطبہ، میں جوانوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ حضرت زہرا کے خطبۂ فدک کو ایک بار ضرور پڑھیں۔
دیکھیے دفاع، حق کی پیروی، دشمن سے مقابلے اور تعلیم کے میدانوں میں عورت کی شراکت ہو سکتی ہے لیکن اس فعالیت کی حدود ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ سماجی سرگرمیوں پر گھرانے کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔ جی ہاں، عورت کے لیے ڈاکٹری اچھی ہے۔ بعض موقعوں پر اگر لیڈی ڈاکٹر موجود ہے تو مرد ڈاکٹر کے پاس جانا جائز نہیں ہے؛ لیکن سماج میں عورتوں کی فعالیت اس بات کا سبب نہ بنے کہ وہ شادی نہ کرے یا بچوں کی پیدائش کیلئے تیار نہ ہو۔ جب اسماء بنت عمیس حبشہ سے واپس لوٹیں تو عورتوں نے ان سے کہا کہ تم چودہ سال تک نہیں تھیں، اب جبکہ واپس آ گئی ہو تو رسول خدا سے کہو کہ عورتیں غمگین ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم جہاد جیسے بعض سماجی میدانوں سے محروم ہیں، ان سے پوچھو کہ ہم محاذ جنگ پر جانے سے کیوں محروم ہیں؟ انھوں نے پیغمبر سے یہ سوال پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں ان خواتین کے اس اچھے انداز بیان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ان سے کہنا کہ "جہاد المراۃ حسن التبعل" یعنی اچھی شوہرداری، عورت کا جہاد ہے۔ مطلب یہ کہ اگر سماجی میدانوں میں 'اچھی شوہرداری' کو فراموش کر دیا جائے تو، خطرناک ہے۔ بچوں کی پیدائش اور شوہرداری کی طرف سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ بچوں کی پیدائش اور سماجی سرگرمیاں انجام دینے میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چار بچے ہونے کے باوجود، سماجی میدان میں موجود تھیں۔ سماج کو جتنی ضرورت تھی، اتنا وہ پڑھاتی تھیں۔ بنابریں سماجی فعالیت کی پہلی شرط گھرانے پر توجہ ہے۔
دوسری شرط، اپنے پہناوے اور وقار کا خیال رکھنا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مسجد میں گئیں اور انھوں نے خطبہ دیا لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح اور کیسے پہناوے کے ساتھ مسجد گئیں۔ روایات میں ہے کہ "لاثت خمارھا علی راسھا واشتملت بجلبابھا و اقبلت فی لمۃ من حفدتھا و نساء قومھا" عربی زبان میں 'خمار' اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جو پورے سر، سینے، بدن اور بازو کو چھپا لیتی ہے۔ جلباب وہ لمبا لباس ہے جو جسم کو سر سے پیر تک ڈھانپ لیتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس طرح کے پہناوے میں اپنے خاندان کی عورتوں اور محرموں کے ساتھ مسجد میں جاتی ہیں اور مسجد میں پردے کے پیچھے سے خطبہ دیتی ہیں۔ روایت میں ہے کہ جب وہ چلتی تھیں تو ان کے بلند لباس کا کچھ حصہ، ان کے پیروں کے نیچے آتا تھا۔